از قلم: آقا حیدری بنگلور، اسلامی دانشور و سماجی مفکر
حوزہ نیوز ایجنسی | مارچ کے مہینہ سے ناول کرونا نامی وائرس نے بشری نظام حیات کو تتر بتتر کردیا ہے اور وہیں طبیعی نظام زیست میں بہار و فرحت کا سبب بن چلا ہے۔۔
اس تحریر میں وائرس کی وجہ سے انسانی تعامل کے طبیعت پر مثبت و مفید اثرات کو شمار کرنا یا اس حوالہ سے قلم افشانی کرنا میرا مقصود نہیں ہے، اور نہ ہی آج کا یہ متمدن انسان کتنا سفیہ و نادان ہے اس کے اثبات کے لئے اس تعامل کو میں ذکر کرونگا، اور نہ آسمانی و زمینی دین و مذاہب، اور ذہنی و وحیانی سوپر پاور، سوپر نیچورل پاور، یا سوپر اسپریچوول پاور کے تحت آنے والے خدا سے توسل و تعبد کی ضعف و ڈامل ڈول، خود ساختہ پرستش و تقرب کا ذکر کرنا میرا مقصود ہے، اور نہ ہی کرونا کے موجود خارجی پر بحث کرنا مقصود ہے کہ سچ میں اس طرح کا کوئی وائرس ہے بھی یا یہ کہ یہ صرف ایک نئے قسم کی انقلابانہ چال ہے جو سماج کے اکثریتی طبقہ کو کچلنے اور استعمار و اذلال کا نیا انداز ہے،
جو بھی ہے ایک وبا ہے جو بھی ہو ایک بلا ہے، جو بغیر اثبات ثابت ہوچکا ہے وہ یہ ہے کہ آج کا متمدن انسان بھی اس اکیسویں بائیسویں ڈیجیٹل، الیکٹرونیکل، عصر مافوق تار، و اشعہ لیزر، ہوشمند راہنما جی پی ایس اور انٹلیکچول مشین و میکانیک کے اختراعی دور میں بھی یہ عربی جملہ صادق آتا ہے وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔۔ ایہا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ہو الغنی الحمید، اس رو سے ابھی بھی بشر کو اپنے تکامل و اپنی تعالی کے لئے مزید کوشا ہونا ایک حتمی امر ہے۔۔ غیب سماوی یا نا پید زمینی سے کوئی دفینہ علم یا آسمانی نوشتہ قلم نہیں ائے گا بلکہ خود ہی بشر کو نجات پانا ہے اور بشر ہی کو نجات کا وسیلہ بننا ہے، ایسے میں زمین پر ہر ایک فرد اور ہر ایک انسان کے لئے لازم ہوتا ہے کہ ادامہ نظم اور استمرار حیات کے لئے ہر ممکنہ اور ناممکنہ کوشش کرے، تلاش کرے، کشف کرے، ابتکار کرے، اختراع کرے، اور تمام احتیاطی تدبیروں کو بروی عمل لائے،
ایک دائمی شکل مسلمہ اور مقبول شدہ فضا کےخلاف اٹھ کڑھا ہونا اور نئی سوچ، نیا انداز اور رائج دانش، رائج تصورات، رائج مسلمات، رائج و موروث نظام تعلیم ، چاپلوسانہ تحقیق و نتیجہ گیری سے ہٹ کر نو اندیشی اور نو عملی کی ضرورت ہے جس کے تحت ہی صمیمت و اخوت و محبت و اطمینان و سرور و سکون نصیب بشر ہو سکے گا۔۔ موبائیل نے ہر ایک کو گوشہ نشیں اور جدا کردیا تھا اور اب کرونا نے کمین نشین اور ہر ایک کو علیحدہ کر رکھا ہے جس کے لئے یہ نوحہ صادق آتا ہے جو کسی فرد نے سماج کے موجودہ انسانوں کی صفات و حالات و گرتے ہوئے وقار سے عاجز آکر پڑھا تھا مگر اب اس کرونا سے متاثر ہوکر روحانیت و معنویت کے کچلے جانے اور انسان کو انسان وائرس اور مہلک کرونا دیکھنے لگے اس کے لئے بھی صادق آنے لگا ہے
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
یہ انسان جو خلیفة الله تھا اس نے اس خلافت پر ضرب لگائی کہ اپنی ذمہ داری( کرما )کو نہیں نبھانا چاہتا مگر ہے تو خلیفة الله چونکہ زمین پر زیست کرنے والے تمام موجودات کے درمیان یہی آشکارا موجود ہے جسے خود اس کے سوا کوئی دوسری چیز فنا یا متزلزل نہیں کرسکتی۔۔ اب شاید سویا ہوا یا غفلت میں ڈوبا ہوا بشر اس وائرس کے نفس پر وار کرنے کی بنا پر تازہ نفس ہوسکے اور اپنے نفس و نفس و نفسیات کی کمیوں و زیادتیوں کو رفع کرے اور سہی انسان اس عالم ہستی کو پیش کرسکے اور خود اپنے واسطے ، تمام موجودات کے لئے جینے کی بہتر جگہ بنا سکے۔۔
کرونا نے اقتصاد کو ڈبویا، کرونا نے سیاست کو مفلوک کیا، کرونا نے ذہنوں کو جھنجوڑا، کرونا نے خرافات و عقائد کو پرکھا، کرونا نے انسان کو توجہ کرنے، دقت کرنے، طہارت و نظافت و بدنی تقویت، اور ایمیون سیسٹم کے مترادف خورد ونوش کی دعوت دی۔۔ کرونا نے سبق سیکھایا کہ سب کے سب، سارے کے سارے انسان ایک موجود ہیں۔۔ خود مختاری اور بے لگامی، عدم مداخلت کے فارمولہ کو غلط ثابت کیا۔۔ اور انسجام و محبت و پاسداری کے ضروری ہونے کو ثابت کیا۔۔امر بہ معروف و نہی از منکر مرچکا تھا اسے زندہ کرنے کی دعوت دی۔
کرونا نے ہماری رسم عید اور مراسم تراویح و اعمال رمضان کو متاثر کیا اور اب ماہ محرم، ماہ عزا آن پہونچا ہے، مذہبی اجتماعات، جلسہ و جلوس اور دستجمعی سینہ زنی، مجلس خوانی، شب بیداری، نذر و نیاز و تبرکات پر پابندی ہوگی، علم و تعزیہ، تابوت وامامبارگاہ کو چھونے، چومنے، متبرک ہونے پر پابندی ہوگی،
عزاداری ایک عبادی عمل ہے جسے ممکن ہے لوگ تیوہار یا میلہ یا رسم یا پروسیشن سے تعبیر کرتے ہیں، دنیا بھر میں شیعہ مسلمان اس غمناک عبادت کے ذریعہ کربلا میں ہولناک ایک گھرانہ کے قتل عام کی غم میں اور اس صاحب گھرانہ کی حسن نیت اور مضبوط ارادہ کی یاد میں سوگ مناتے ہیں ، ہمدردی ظاہر کرتے ہیں، اپنی وفا کا اعلان کرتے ہیں ان کی حمایت کرتے ہیں اور بیعت حسینی بھی، اس المناک واقعہ کی یاد میں 9 ذی الحجہ اس کے بعد پہلی محرم سے اٹھ ربیع الاول تک مسلسل دو مہینہ سے زائد ماتمی جلوس، تابوت ، ذوالجناح، تعزیہ، مجلس خوانی، شب بیداری، نذر وسبیل، علم و شبیہ خوانی، مقتل خوانی اور نوحہ و مرثیہ و سلام، منفردانہ اور مسابقاتی مشترکانہ شکل و شمائل میں اہتمام ہوتا ہے، کہیں کہیں اور کبھی کبھی آگ سے گزرنے کا ماتم اور سینہ و پشت و سر پر خون بہانے کا ماتم بھی ہوتا ہے جسے آگ کا ماتم، زنجیر کا ماتم، قمہ کے ماتم سے تعبیر کیا جاتا ہے،
امام حسین علیہ الصلاة والسلام جن کی یاد میں یا جن کی محبت میں یہ پروگرام ہوتے ہیں وہ ایک ایسے امام ہیں جن کے ساتھ شہادت پانے والوں کا معنوی مقام یہ ہے کہ یغبطہ الانبیاء والمرسلون، اور جس امام کا مقام یہ ہے کہ بعض تحلیل کے مطابق اگر امام حسین یہ اقدام نہ کرتے تو محمد رسول اللہ کی رسالت و نبوت مسخ ہوجاتی اور دین اسلام اپنے مسیر سے منحرف ہوکر تحریف شدہ ہوجاتا اس نظریہ کو تعبیر کرتے ہیں کہ اسلام محمدی الوجود اور حسینی البقاء ہے۔۔
مزید اس امام کے لئے ایک استثنائی قاعدہ اور بھی ہے کہ ما عملت للحسین فلیس بسرف و ما انفقت فی حب الحسین فلیس بسرف۔۔
جس کا اردو میں مطلب ہے کہ امام حسین کے لئے کیا جانے والا کوئی کام عبث نہیں ہے اور تم نے جو بھی امام کی محبت میں خرچ کیا وہ فضول نہیں ہے۔
یہ ایسے ایام ہیں جس میں حکومت یعنی جابر حکومت کی مخالفت اس کا ایک اولی اصل ہے،اس مقام پر یاد رکھنے کی مہم بات یہ ہے کہ مسلمان اور شیعہ مسلمان نظم و انتظام اور اپنی رائ اور اپنی مرضی سے منتخب شدہ جمہوری نظام کے تحت تشکیل یافتہ حکومت کے ہر جمہوری دستور اور آرڈر کو فالو کرنا اپنے اوپر فرض گردانتے ہیں، سماجی مشروعیت رکھنے والی حکومت کی مخالفت کو حرام و ناجائز جانتے ہیں ، چونکہ یزید کی مخالفت امام حسین نے اسی بنا پر کی تھی کہ اس کی حکومت کو سماجی مشروعیت میسر نہیں تھی، لہذا تمام شیعہ مسلمان ملک ہند میں اور دیگر تمام ملکوں میں اس کرونا وبا کے چلتے حکومتوں اور ضلع انتظامیہ کے سیفٹی آرڈر اور اصولوں، گائیڈ لائینس کے مطابق اس عبادت محرم اور مولا حسین کی سوگواری انجام دینگے جس میں شامل ہے:
1۔ مولاحسین کے لئے ان کا ماتم، جلوس، ذکر مصیبت اور نوحہ، علاقہ سے وابستہ کربلا، درگاہ کی زیارت، ضرور انجام دینگے، مولاحسین اور شہیدان کربلا کی عزاداری کسی بھی حال میں متوقف نہیں ہوسکتی۔۔
2۔ خون بہانے کا ماتم کسی بھی حالت، کسی بھی صورت، کسی بھی مقدار میں مخفیانہ، معلنانہ کہیں پر بھی انجام نہیں دینگے۔
فمن هم بحسنة فلم يعملها كتبها الله له عنده حسنة كاملة،
اور اس سال خون کا ماتم نہ کرنا بھی خیر ہے پس اگر کسی نے قمہ کا ماتم کرنے کا ارادہ کیا اور انجام نہیں دیا اس نے کار خیر کیا کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ جس نے کار خیر کا ارادہ کیا اور کیا نہیں اللہ اس کے لئے پورا خیر لکھتا ہے۔
اس کے اوپر مضاف اجر و ثواب یہ بھی ہے کہ اس قسم کے ماتم نہ کرنا بھی خود خیر و نیکی ہے اس متفشی وبا کی وجہ سے لہذا ہم نے ماتم نہیں کیا لوگوں کی سلامتی کی خاطر۔بیماری کو پھیلنے سے بچانے کی خاطر۔یقینا ماتمداروں کو اس کا اجر نصیب ہوگا۔
3۔ تبرکات جسے گروہی شکل میں کھانے یا سبیل یا فاقہ شکنی یا لنگر یا نذر کے عنوان سے دیتے ہیں صرف اس سال اس شکل میں انجام نہیں دینگے بلکہ اس پیسہ کو حفظ دین،ترویج معنویت اور احتفاظ روحانیت و شریعت یا جبران کار و کاسبی یا حفظان صحت یا حفظ جان اور کویڈ 19 سے مقابلہ کرنے میں خرچ کرینگے یا اپنے علاقہ میں موجود دینی علماء کو دینگے کہ نان ونفقہ کا انتظام کرسکیں؛ اور اگر تبرک ہی دینا ہے آنلائن ٹرانزیکشن کے ذریعہ اپنے بھائیوں بہنوں تک خیر و حسینی اجر پہونچا سکتے ہیں۔
4۔ کھلی فضا میں مرثیہ خوانی یا نوحہ خوانی یا سلام خوانی یا سینہ زنی کو انجام دینگے جو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق ہونا ضروری ہے، بند جگہ مسقف، کورڈ ایریا، میں ہر قسم کے اجتماع سے اور مجلس و ذکر سے پرہیز کرینگے۔
5۔ ہر فرد اپنے ہی گھر میں مولا حسین سے متعلق نوحہ، مجلس یا سیمینار ، کانفرنس، گفتگو ، آنلائن مشاہدہ کریں یا گھر کا کوئی فرد ہمت کرے اور بیان پڑھے یا شعر و نظم و سلام ونوحہ پڑھے اور باقی گھر والے خود کو مخاطب قرار دیں اور ہر گھر کو حسینی گھر بنائیں!
جس جگہ حکومت کی طرف سے پابندی نہیں ہے اور لوگوں کو اطمینان ہے کہ وبا پھیلنے کا اس علاقہ میں خطرہ نہیں ہے وہ تمام احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے فیزیکل فاصلہ گزاری اور ڈیسازٹر مینیجمنٹ کے مطابق عزاداری کا انعقاد کرسکتے ہیں۔
6۔ آج کل فرصت کے بھی ایام ہیں اس لئے اس محبوب عبادت کو کربلا سے متعلق اپنی زبان میں چند کتابوں کا مطالعہ کرکے بھی انجام دے سکتے ہیں؛
7۔ محرم میں اجتماع ہوتا ہے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں اس کا اپنا ثمرہ تھا، مجلسوں میں خطابت ہوتی تھی اس کی اپنی مٹھاس و تلخی ہوا کرتی تھی اور اب معلوماتی سہی جانکاری لینے کا وقت آگیا ہے۔۔ اور سماجی انسجام کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلیفون یا ویڈیو کالینگ، آپسی انلائن، کانفرنس میٹینگ کے ذریعہ قائم رکھا جاسکتا ہے، بلکہ ہم سب اپنی اولاد کو، خود کو، ازواج و اقارب کو بھی ذاکر حسین، مرثیہ خوان حسین اب بنا سکتے ہیں، اس طرح کہ گھر میں اپنے لئے مجلس یا کوئی حسینی پروگرام کریں جو صرف ایک دستر سے روٹی کھانے والے افراد پر مشتمل ہو دوسرے رشتہ دار یا پڑوس کا بھی کوئی نہ ہو آپ اپنے لئے فیمیلی حسینی پروگرام کا اہتمام کریں، کتاب سے یا اپنے محفوظات سے آپ سنائیں یا آپ کے ساتھ رہنے والوں میں سے کوئی سنائے یا سوال و جواب کریں۔ مناسب ہونے، حوصلہ بڑھانے کیلئے آنلائن کردیں اور اپنے قریبی یا قریب کے دوستوں کو بھی شامل کرلیں، شاید آن کے گھر کا کوئی ممبر بھی سننے کے ساتھ کچھ سنائے۔۔
ماہ عزا کی عبادت اب اور بہتر انداز، موثر تر اور کم خرچ پر انجام دے سکتے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایک ہی ڈھرے پر چلا جائے، زمانہ کی کوئی بھی چیز غیر متحرک نہیں ہے لہذا ہمارے طور طریقہ بھی ایک ہی طرز پر ضروری نہیں کہ ثابت رہیں تغییر اور بہتر پذیر نہ ہوں یا زمانہ کے تناسب و ہماہنگی سے بے بہرہ ہوں۔۔
کربلا میں مولا حسین کے عزم و اصرار اور فداکاری پھر جناب زینب کی شجاعت و بہادری اور امام سجاد کی صولت و فصاحت نے اس واقعہ کو جاوداں کردیا ہے اس کو کرونا ،کرفیو، سیلاب، طوفان نہیں روک سکتا چونکہ حسین سفینہ نجات اور شہید جاوید ہے۔
8۔ اب یہ ایک وقت ہے جس میں ہم کربلا کا واقعہ کیون رونما ہوا اس دور میں اس کا نتیجہ کیا ہوا،
ہماری رسم عزا اور عزاداری کے طور طریقہ کا سماج پر اور حکومتوں پر، مفکرین پر، دوسرے سماج پر کیا اثر ہوتا ہے اسے جاننے کھوجنے کی ضرورت ہے؛
9۔ دنیا میں امام حسین اور کربلا کے حوالہ سے کتنے سبجیکٹ ہیں جو اکیڈیمیک اداروں، یونیورسٹیز ، ریسرچ سنٹرس میں پڑھائے جاتے ہیں ، کتنی تھیسیز لکھی گئیں، کتنے شیعہ غیر شیعہ افراد نے امام حسین کا ٹاپیک اپنی ڈوکٹریٹ یا بیچولر ڈگری کے لئے لکھا ہے، کتنے پروفیشنل، نون پروفیشنل فنی ادبی انسٹیٹیوٹ ہیں جو ماتم ،مرثیہ ،نوحہ، سلام کے اسرار و فنون پر کام کرتے ہیں۔۔
آئیے سنتی دقیانوسی سبک سے عبور کریں اور زمانہ کے مطابق اپنے اعمال پر ایک نگاہ ڈالیں!
کرونا وائرس کیا حسین کے ماتم کو روک سکتا ہے؟
جواب : ہر گز نہیں۔۔
چونکی حسین سفینہ نجات ہے اور مکتوب علی عرش الیمین او یمین العرش ان الحسین مصباح الہدی و سفینة النجاة.
عالم ہستی کے داہنے پہلو پر یا عرش الہی کے داہنی جانب لکھا ہوا۔۔ کہ حسین سراج ہدایت اور نجات کا سفینہ ہے۔۔
اب حسین کی زندگی، حسین کا عمل، حسین کا اثر، حسین کا ارشاد ، حسین کی گفتار، حسین کا نام، حسین کا ذکر سب کا سب نجات کا وسیلہ ہے لہذا کرونا سے خوف کھا کر غم حسین، ماتم حسین ، مجلس حسین ، ذکر حسین موقوف یا متوقف نہیں ہوگا بلکہ پہلے سے بہتر ، اثر گزار تر، نوین تر شکل و شمائل میں منعقد ہوگا، اور عالم علم و دانش، نظام وحکومت اور حفظان صحت عامہ اور سائنس کے مطابق مولا حسین کا ذکر جاوداں ہے۔۔غمزدہ دل سے نکلی صدا یاحسین سے ہر بلا دور ہوتی ہے، دور ہوگی ہے یہ وبا بھی رفع ہوگی۔۔
میری تمام عزاداروں سے گزارش ہے کہ مولا حسین کی عزاداری کا ضرور اہتمام کریں، ساتھ ہی ساتھ اجتماعی جلوس، اجتماعی پروگرام سے پرہیز کریں اور کرونا کے پھیلاو کو روکیں، سماج کی حفاظت کریں اور تندرست وتوانا اور آبرومند بنائیں، مضحکہ بننے اور ان سیویلائیزڈ سوسائٹی کے مظاہر سے پرہیز کرینگے۔
آقا حیدری، بنگلور
اسلامی دانشور اور سماجی مفکر
3 اگست 2020
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ کا تبصرہ